حقوقِ انسانی، یاہو پر مقدمہ
چین میں انٹرنیٹ ریگولیشن کے قوانین انتہائی سخت ہیںحقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے ایک امریکی گروپ نے انٹرنیٹ کمپنی یاہو پر چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کے حوالے سے کردار ادا کرنے کا الزام لگایا ہے۔
’ورلڈ آرگنائزیشن آف ہیومن رائٹس‘ نے یاہو کے خلاف عدالت میں مقدمہ داخل کیا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ یاہو کی جانب سے چینی حکومتی کو فراہم کی جانے والی معلومات کے نتیجے میں چین میں مصنفین اور اخبار نویسوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔
مقدمے میں ایک صحافی شی تاؤ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جسے چینی حکومت نے یاہو کی جانب سے اس کے ای میل اور انٹرنیٹ پروٹوکول ایڈریس کی فراہمی کے بعد پکڑ کر دس برس کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔
شی تاؤ کے وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ یاہو کو چینی حکومت کو معلومات فراہم کرنے سے قبل وجہ معلوم کرنا چاہیے تھی اور یہ کہ یاہو کمپنی اپنی اخلاقی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے۔
یاہو کے افسران کا ماننا ہے کہ ان کی فراہم کردہ معلومات چینی صحافی کی گرفتاری کی وجہ بنی لیکن ان کا کہنا ہے کہ یاہو کمپنی جس جگہ بھی کام کرتی ہے وہاں کے مقامی قوانین کی مکمل پاسداری کرتی ہے۔
یاد رہے کہ چین میں انٹرنیٹ ریگولیشن کے قوانین انتہائی سخت ہیں اور صحافی شی تاؤ کو حکومت کی رشوت ستانی کے بارے میں انرنیٹ پر اپنا بیان دینے کے جرم میں پکڑا گیا تھا۔
یاہو کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پرائیویسی اور اظہارِ رائے کی آزادی کی حامی ہے اور وہ دیگر کمپنیوں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
یاہو وہ واحد کمپنی نہیں جس پر چینی حکومت کو معلومات فراہم کرنے کا الزام لگا ہے بلکہ اس سے قبل گوگل بھی اپنی چینی ویب سائٹ پر سیاسی طور پر حساس مواد بلاک کرنے کا اعتراف کر چکا ہے۔